حجت الاسلام والمسلمین مهدی مهدوی پور:
ھندوستان میں لڑکیوں کے دینی مدارس کی تعداد 30 | ھندوستان کے بعض علاقہ میں اخباریت کا عروج ہے
آٹھ سال پہلے ھندوستان میں لڑکیوں کے 12 دینی مدارس تھے مگر آج 30 دینی مدارس ، طالبات کو دینی تعلیمات دینے میں مصروف ہیں ۔
رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، ھندوستان میں ولی فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے نمائندہ حجت الاسلام والمسلمین مهدی مهدوی پور نے جامعه الزهراء علیها السلام کی تعلیم یافتہ طالبات کے علاقائی اجلاس کے افتتاحیہ سے خطاب کرتے ہوئے اجلاس میں موجود جامعه الزهرا علیها السلام ایران کے پرنسل اور ان کے ہمراہ موجود وفد کی قدردانی کی اور کہا: ہم برسوں سے جامعه الزهرا علیها السلام ایران کے ایک وفد کے ھندوستان میں منتظر تھے کہ آج انتظار کے یہ لمحات ختم ہوگئے ۔
دہلی میں ولی فقیہ کے نمائندہ نے بیان کیا: جامعه الزهرا علیها السلام لکهنو کہ جو اپنی تاسیس کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر اس عظیم الشان اجلاس کا مہمان ہے، جامعه الزهرا علیها السلام قم کی شجرہ طیبہ کی شاخ ہے ۔
حجت الاسلام و المسلمین مهدوی پور یاد دہانی کی: جامعه الزهرا علیها السلام لکهنو 25 پہلے خواھر رباب زیدی اور ان کے شوھر نامدار مرحوم حجت الاسلام سید حیدر مهدی زیدی کی محنتوں کا ثمرہ ہے ۔
ھندوستان میں لڑکیوں کے دینی مدارس کی تعداد 30
انہوں نے واضح طور سے کہا: میں جب آٹھ سال پہلے جب ھندوستان آیا تو اس وقت پورے ھندوستان میں لڑکیوں کے فقط 12 دینی مدارس تھے ، مگر آج 30 دینی مدارس ، طالبات کو دینی تعلیمات دینے میں مصروف ہیں کہ 30 واں مدرسہ شھر جونپور میں ہے اور 31واں مدرسہ کی شھر دہلی میں سنگ بنیاد رکھی جائے گی۔
دہلی میں ولی فقیہ کے نمائندہ نے اپنی گفتگو کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: آج ھندوستان میں تنظیم المکاتب کا اہم کردار ہے ، اس کے 2800 مکاتب کشمیر میں ہیں اور تقریبا 2 لاکھ طلبہ اور طالبات ملک کے مختلف کونے میں موجود ہیں کہ جو اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان مکاتب میں دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔
انہوں نے بیان کیا: اس حوالہ سے کہ تعلیم اور تربیت کمسنی میں موثر ہے، جن افراد کے پاس قرانی تعلیمات کم ہیں وہ ان کمسن بچوں کو تعلیم نہ دیں ، لہذا جامعه الزهرا علیها السلام کے فارغ التحصیلان سے ہماری امید ہے کہ وہ ان مکاتب میں جاکر قرانی تعلیمات دیا کریں ۔
مسلمانوں کے مسائل کی بہ نسبت غفلت ناقابل بخشش عمل
دہلی میں ولی فقیہ کے نمائندہ نے اپنے بیان کے دوسرے حصہ میں بعض علاقوں میں دین اور سیاست میں جدائی کے حوالے سے موجود نظریات کی جانب اشارہ کیا اور کہا: اگر طے ہو کہ دین اور سیاست ایک دوسرے جدا ہوں تو امام حسین علیه السلام کے قیام کی ضرورت نہ تھی ۔
انہوں نے مزید کہا: دین اسلام کے بہت سارے اقدار کی بازگشت سیاست کی جانب ہے، اور مسلمانوں کی تقدیر کی بہ نسبت بے توجہ نہیں رہا جا سکتا ۔
حجت الاسلام والمسلمین مهدوی پور نے اپنے بیان کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے شیعہ اور سنی اتحاد کی اہمیت کی جانب اشارہ کیا اور کہا: اسلامی اتحاد کا مقصد یہ نہیں ہے کہ شیعہ یا سنی اپنے دینی اعتقادات سے ہاتھ کھینچ لیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت اور شیعہ دونوں اسلام کی کڑی ہیں اور وہ ، قبلہ ، کتاب خدا ، رسول اکرم صلّیالله علیه وآله اور دیگر دینی مشترکات پر توجہ کرتے ہوئے اسلامی اخوت و برادری کا احیاء کریں کہ ختلافات کی صورت میں خود شیعوں کا عظیم نقصان ہوگا ۔
ولایت فقیہ، ولایت اهل بیت علیهم السلام کا تسلسل میں ہے اس کے برابر میں نہیں
انہوں نے مسئلہ ولایت فقیہ کی جانب اشارہ کیا اور کہا: ولایت فقیہ ولایت اهل بیت علیهم السلام کے تسلسل میں ہے اس کے برابر میں نہیں ہے ، اگر ہم امام حسین علیہ السلام کے معتقد ہیں تو ان کے نمائندہ حضرت مسلم بنعقیل علیہ السلام کو بھی سمجھیں ، مانیں اور اعتقاد رکھیں ۔
ھندوستان میں ولی فقیہ کے نمائندہ نے مزید کہا: مالک اشتر کے اختیارت امیرالمومنین علی علیه السلام کی ولایت کے ضمن میں تھے اور اگر فقیہ مرجع وقت کا فتوا نافذ ہے تو وہ بھی امام معصوم علیہ السلام کی نیابت کی وجہ سے ہے ۔
ھندوستان کے بعض علاقہ میں اخباریت اپنے عروج پر
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ بعض علاقے از جملہ حیدر آباد میں اخباریت کا دور دورہ ہے کہا: اخباریت ایک مسئلہ ہے کہ جس پر توجہ ضروری ہے کیوں کہ تقلید ایک اہم شرعی گفتگو ہونے کے ساتھ ساتھ عقلی بحث بھی ہے ۔
حجت الاسلام والمسلمین مهدوی پور نے واضح طور سے کہا: اگر مرجع تقلید فتوا دیتا ہے تو قال جعفر الصادق و قال محمد الباقرعلیهما السلام کی بنیاد پر فتوے دیتا ہے ، اگر انسان تقلید نہ کرے تو ضروری ہے کہ یا خود مجتھد ہو تا محتاط ہو کہ جو سب کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ /۹۸۸/ ن